جشن عید میلاد النبی ﷺ کی حقیقت

 


تحریر : سید نجم الاسلام ہاشمی

سجادہ نشین خانقاہ ہاشمیہ نقشبندیہ مجددیہ سہگل آباد شریف چکوال


 "میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اے حبیب مکرم) اس لیے کے آپ اس میں تشریف فرماہیں (القرآن سورۃ بلد) فطرت کا مسلمہ اصول ہیکہ جب اندھیرے اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں۔ تاریکیاں اپنے پر پھیلادیتی ہیں، جہالت انسانیت کاگلا گھو نٹتی ہے،نفرتیں،محبتوں پر غالب آجاتیں ہیں۔ تہذ یب و شائستگی کو انسان بھول جاتا ہے۔ درندگی انسانیت کونگلنے لگتی ہے۔تو اجالا، اندھیر ے کا سینہ چیر کر جلوہ فگن ہو جاتاہے۔ روشنی تاریکی کے وجود مٹادیتی ہے۔دنیا میں امن و آشتی اور تہذیب و شائستگی کا دور دورہ ہوتاہے۔آدمیت پر انسانیت کا احترام سکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہادی رہنما یا رہبر بھیجا جاتاہے۔ حالات جتنے زیادہ دگرگوں ہوں ہادی اتنا ہی بلند حوصلہ اور بلند رتبہ بھیجا جاتاہے۔

جب آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی تو ظلم،بربریت اورجہالت اپنی آخری حدوں کوچھو رہی تھی کسی کی جان و مال،عزت و آبرو محفوظ نہ تھی۔ بیٹیاں زندہ درگور کی جاتیں۔ انسانی خون سب سے ارزاں تھا، کعبتہ اللہ کا عریاں طواف کرنا خوبی سمجھا جاتاتھا۔ بت پرستی اور شرک چار سو اپنے ڈیرے جمائے ہوئے تھا۔ ان حالات میں 12ربیع الاول کو (محققین کے نزدیک قریب نماز فجر)آپ ﷺ نے اپنی پیدائش سے اس کائنات کوعزت بخشی ہے۔خدا کی قسم اگر حضور ﷺ کی ولادت نہ ہوتی تو یہ زمین،آسمان، چاند، ستارے،کہکشاں،بحرو بر اورخشک وتر کچھ بھی تو نہ ہوتا۔

بقول شاعر:۔

  نہ کیوں آرائشیں کرتا خد ا دنیا کے سماں میں 

  تجھے دولہا بناکر بھیجنا تھا بزم امکاں میں 

آ پ وﷺکی ولادت باسعادت سے جو دنیا میں انقلاب برپا ہوا وہ کسی شک وشبہ سے بالا تر انسانی حقوق کے حوالے سے بلند ہونیوالی پہلی حقیقی آواز تھی۔آپ ﷺ نے ظلم وستم، بربریت، شرک و بت پرستی کا شکار انسانوں کوایک خد ا کی طرف لائے آپ ﷺ نے خواتین کوحقوق دلوائے۔جسکا عربوں میں کوئی رواج نہ تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے عرب پوری دنیا کے لیے رول ماڈل بن گئے۔

  چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے 

  آگئے بدر الدجیٰ اھلُا و سھلُامرحبا

ربیع الاول کاچاند نظر آتے ہی دنیا بھر کی طرح وطن عزیز کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کومیلاد النبی ﷺ کے حوالے سے دلہن کی طرح سجادیا جاتاہے۔ خوبصورت سبز جھنڈے، بینرز اور دیگر طریقوں سے زیبائش اورآرائش کر کے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ماہ ربیع النور شروع ہوتے ہی محافل میلاد،محفل نعت اور مشاعروں کاہتمام کیاجاتاہے۔ اس پر خوشی،شادمانی اور مسرت کااظہار کیاجاتاہے۔لیکن یہاں پرایک کنفیویثرن یا تو ایسے ہی پھیلی ہوئی ہے یا جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہے۔واللہ عالم!

کہ اسلام میں منانے "(Celebration) کا کوئی تصور نہیں ہے۔ میلاد منانا کوئی علاقائی، جغرافیائی، ثقافتی یاہندوستان پاکستان کی روایات ہیں اس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کسی بھی چیز یادن کومنانا Celebration)) عین اسلام ہے۔تاریخ شاہد ہے اسلامی علوم کے مرکز دمشق، بغداد اور تمام عرب میں میلاد النبی ﷺ منائی جاتی ہے۔ ماسو اے عرب کے مخصوص خطہ کہ جہاں محض گزشتہ78سال سے بعض وجوہات کی وجہ سے میلاد سرکاری سطح پر نہیں منایا جارہا۔ لیکن سعود خاندان کا مسئلہ دینی یاشرعی نہیں بلکہ ان کا ذہنی اورنفسیاتی مسئلہ ہے۔جس کے لیے شرعی دلیل سے بہت زیادہ ماہرذہنی طبیب کی ضرورت ہے۔ Celebration کا تعلق اسلام سے ہی ہے۔ اور نماز پنجگانہ نبیوں کی یاد میں ہی منعقد کی جاتی ہیں یا منائی جاتی ہیں ۔

نماز فجر۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے دونوافل امت محمد یہ ﷺ کے لیے وہ نماز فجر بن گئی۔

نماز ظہر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام نے دعا کی تھی ان کی پیدائش کے لیے شکرانے میں جو 4نوافل اداکیے وہ نماز ظہر بن گئی۔

نماز عصر۔ حضرت عوز یر علیہ السلام کی یاد میں سو سال کے بعد زندہ ہونے پر شکرانے کے 4نوافل ادا کیے وہ نمازعصر بن گئی۔

نماز مغرب۔حضرت یعقو ب علیہ السلام اور بعض روایات میں حضرت ایوب علیہ السلام جب بیماری کے بعد صحت یاب ہونے پر 4رکعت نوافل کی نیت کی لیکن تین ادا کیے اور چوتھی رکعت کے لیے اُٹھ نہ سکے۔ یہی تین رکعت تھے جونما ز مغرب ہوگئی۔

نماز عشاء۔ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے رہا ہونے پر4رکعت نوافل شکرانے کے ادا کیے، جو امت محمد یہ ﷺ کے لیے نماز عشاء قرار پائی ہے۔

اس لیے یہ بات ظاہر ہوئی کہ نماز جیسی افضل عبادت بھی انبیاء سے مخصوص کی گئی ہے۔اور ان کے فعل کی یاد کوتازہ کرنے کے لیے مختلف نمازوں کو مختلف انبیاء سے منسوب کیا۔ کسی بھی چیز کو منانا (Celebrate)کرنا اسلام کے منافی نہیں ہے۔یہ عین اسلام ہے۔

اللہ ہمیں اس بابرکت ماہ مقدس کواس کی اصل روح کے مطابق منانے کی توفیق د

ے۔(امین)۔ 

 

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.