غازی مرید حسین شہید کی زندہ کرامات

 


*غازی مرید حسین شہید کی زندہ کرامات*

آئینہ

ملک فداالرحمن”تمغہ امتیاز“


اسلام میں شہید اور غازی کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ان میں سے کسی ایک کا بھی شرف حاصل ہو جائے لیکن ان کی شان اور مرتبے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی سرور کائنات کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ جنت میں داخل ہو رہا ہو۔ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے بہت بڑے مرتبے کے مشائخ، عظائم، اولیائے اللہ، غازی اور شہید گزرے ہیں۔ خاص طور پر رسالت مآب حضرت محمدؐ کی ذات پر جان دینے والے غازیوں میں غازی علم دین اور غازی مرید حسین کو اللہ تبارک نے زندہ معجزوں سے نوازا۔ غازی مرید حسین کا تعلق تحصیل و ضلع چکوال کے گاؤں ”بھلہ“ سے تھا جو اب ان کی آخری آرام گاہ کی وجہ سے ”بھلہ شریف“ کہلاتا ہے۔ غازی مرید حسین کا بچپن سے ہی اسلام سے گہرا لگاؤ تھا۔ ان کے گاؤں میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی۔ ہندوؤں کی ہی گاؤں میں پرچون کی دکانیں تھیں۔ غازی مرید حسین جب ان کی عمر صرف 20 سال کے لگ بھگ تھی، پورے گاؤں میں اعلان کر دیا گیا کہ کوئی بھی شخص ہندوؤں کی دکان سے سودا سلف نہیں خریدے گا۔ مسلمان چونکہ غریب تھے ہندو ساہوکاروں سے ادھار لینے پر مجبور تھے۔ انہوں نے مرید حسین کو اپنے حالات سے آگاہ کیا تو مرید حسین نے اپنے ذاتی خرچ پر ان کو دکانیں بنا کر دیں اور کہا کہ غریب مسلمانوں کو سال بھر یا اگلی فصل کے آنے تک ادھار دے دیا کریں۔ غازی مرید حسین گاؤں کے نمبردار چوہدری محمد عبداللہ عرف چوہدری عبدل کے اکلوتے صاحبزادے تھے۔ ابھی آپ کی عمر صرف ساڑھے تین سال تھی تو ان کے والد محترم انتقال فرما گئے۔ وہ چکوال کی معروف شخصیت چوہدری خیر مہدی کہوٹ صاحب کے چچا زاد بھائی تھے۔ مرید حسن چوہدری خیر مہدی کے والد اور اپنے چچا کی سرپرستی میں چلے گئے لیکن کچھ سال کے بعد جب خیر مہدی کی عمر صرف پانچ سال ہوئی تو ان کے والد کا بھی انتقال ہو گیا پھر مرید حسین اور چوہدری خیر مہدی کی پرورش اپنے دادا چوہدری اللہ داد نے کی۔ مرید حسین نمبردار نے صرف 20 سال کی عمر 1936ء میں ”زمیندار“ اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ ایک جانوروں کے ہسپتال کا ڈاکٹر جس کا نام رام گوپال تھا وہ حضور سرور کائنات حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کر رہا ہے وہ کیا گستاخی کر رہا تھا اس کو لکھنا میرے قلم کی اب بھی جرات نہیں۔ بہرحال وہ شانِ رسالتؐ کی توہین کر رہا تھا۔ یہاں میں ایک بات لکھنا بھول گیا کہ اخبار میں یہ تحریر پڑھنے سے پہلے ایک رات خواب میں مرید حسین کو حضورؐ کی زیارت نصیب ہوئی اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی آئی جو مسلمانوں کو ہندوؤں کی دکانوں سے سودا سلف لینے کا واقعہ ہوا تھا وہ بھی حضور پاک ﷺکی زیارت کے بعد ہی ایسے اقدامات کئے جاتے رہے۔ بہرحال اس خبر کو پڑھتے ہی انہوں نے وہیں یہ فیصلہ کر لیا کہ میں نے اس مردود کو زندہ نہیں چھوڑنا۔ انہوں اس ارادے کا ذکر اپنے پیر و مرشد حضرت پیر چاچڑ شریف قلندر پاک کیا پیر صاحب نے پہلے انہیں شادی کا مشورہ دیا. ان کی شادی اپنی چچازاد امیر بانو سے ہوئی شادی کو ابھی صرف چند دن ہی گزرے تھے کہ وہ اپنے پیر خواجہ محمد عبدالعزیز نظامی فخری السلیمانی اپنی بیوہ ماں اور اپنی شریک حیات سے اجازت لے کر گستاخ رسول کی تلاش میں نکل پڑے۔ انہوں نے تین روپے کی تیز دھار چھری بنوائی۔ اس وقت ذرائع آمدورفت اور میڈیا کے وسائل اتنے آسان نہیں تھے اس لئے ان کو اس مردود کی رہائش اور ہسپتال تک پہنچنے میں 6 مہینے لگ گئے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مرید حسین کا جذباتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شوق شہادت تھا۔ ڈاکٹر رام گوپال ایک گاؤں گُڑگانواں تحصیل ہانسی ضلع حصار کا رہنے والا تھا۔ گھر کے ساتھ ہی اس کا جانوروں کا ہسپتال تھا جب غازی مرید حسین اس کے ہسپتال کے قریب پہنچے تو وہاں کافی لوگ تھے۔ تھوڑی دیر انتظارکیا لیکن پھر مڑے اور ڈاکٹر رام گوپال کو للکارتے ہوئے کہا کہ محمدؐ کا دیوانہ آگیا ہے، یہ کہتے ہی اس مردود پر چھری کا وار کیا۔ اس خیال سے کہ وہ زندہ نہ بچ جائے مزید وار کئے اور گاؤں سے باہر کی طرف نکل پڑے۔ قبل اس کے ہندوؤں کا ہجوم ان کو قتل کرنے کے لئے جھپٹ پڑتا آپ چھری سمیت ایک تالاب میں کود گئے۔ پولیس نے آ کر تالاب کو گھیرے میں لے لیا۔ غازی مرید حسین نے پولیس کو گرفتاری پیش کر دی۔ قسمت کا کھیل دیکھیں جب اس تھانے کے تھانیدار نے غازی مرید حسین کا علاقہ پوچھا تو مرید حسین نے چکوال بتایا قوم پوچھی تو ”کہوٹ“ بتائی۔ آپ سن کر حیران ہونگے کہ وہ تھانیدار صاحب تحصیل اور ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے سابق چیف کمشنر اسلام آباد، سابق وفاقی سیکرٹری اور منیر کہوٹ کے والد محترم جناب احمد شاہ کہوٹ تھے۔ مرید حسین کہوٹ اور احمد شاہ کہوٹ کی بہت سارے لوگوں سے کئی حوالوں سے واقفیت نکل آئی بلکہ بزرگوں کی حد تک رشتہ داری کے رشتے بھی تھے۔ احمد شاہ کہوٹ نے مسلمان اور خود بھی عاشق رسول اور اپنے علاقے چکوال کے ہونے کے حوالے سے غازی مرید حسین کو کہا کہ آپ خود اقبال جرم نہ کریں تو میں آپ کو بچانے کی پوری کوشش کروں گا لیکن غازی مرید حسین نے جوش شہادت اور شوق شہادت میں انکار کر دیا۔ تھانیدار احمد شاہ کہوٹ اس تمام واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع چکوال میں تمام لوگوں اور خاص کر ان کے لواحقین تک پہنچائی۔ غازی مرید حسین کو جہلم جیل میں منتقل کیا گیا ان کی طرف سے بیرسٹر جلال الدین قریشی اور دوسرے کئی مسلمان وکیل پیش ہوتے رہے۔ 18 اگست 1936ء کو گستاخ رسول ڈاکٹر رام گوپال کو واصل جہنم کیا اور 24 ستمبر 1937ء کو جام شہادت نوش فرمایا۔ غازی مرید حسین نے جیل میں بہت خوبصورت شاعری کی۔ ایک میں تو انہوں نے پاکستان اور پاکستانی سبزہلالی پرچم کی نشاندی بھی کر دی۔غازی مرید حسین کا یہ شعر بہت ہی اعلیٰ اور پُر اثر ہے کیونکہ غازی مرید حسین سے غازی عباس تک ہر غازی کی شان واقع بڑی کمال ہے۔غازی مرید حسین سے غازی عباس تک ناموسِ رسالت کے لئے جان دیتے رہے۔


ؔ؎ انہاں غازیاں دی شان کمال ہوندی اے

 قومی پرچم تے اتے شکل ہلال ہوندی اے


یہاں یہ بات یاد رہے کہ غازی مرید حسین نے یہ شعر جیل میں 1937ء میں کہا تھا جبکہ قراردادِ پاکستان 1940ء میں منظور ہوئی۔اس کے بعد 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا۔ اس وقت پاکستان کے نقشے کا رنگ اور ڈیزائن طے ہوا لیکن غازی مرید حسین 10سال پہلے پاکستان کے جھنڈے پر ہلال کا نشان اپنے شعر میں بتا گئے تھے۔

غازی صاحب جیل میں اپنا تخلص اسیر لکھتے تھے تو اس حوالے سے ایک شعر یہ بھی لکھا:


ؔ؎ دنیا سے دل لگا کر تجھے کیا ملا اسیر

    اب عشق مصطفیؐ میں جان دے کے دیکھ


غازی مرید حسین کے جذبے اور شوق کے ساتھ اس بیوہ ماں جن کا نام غلام عائشہ تھا کا شوق اور جذیہ دیکھیں جن کا اکلوتا بیٹا صرف ساڑھے تین سال کا تھا تو خاوند کا سایہ سر سے ہٹ گیا۔ بیوہ ماں نے کن مشکلات سے یتیم بیٹے کو پال پوس کر جوان کیا جب بیٹا عہد شباب میں پہنچا تو اس کو ناموس رسالتؐ کے لئے منہ چوم کر اتنی دور بھیج دیا، یہ ضروری نہیں تھا کہ بیٹا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا وہ خود راستے میں ہی کافروں کے ظلم و تشدد کا نشانہ بن سکتا تھا لیکن میں صدقے اور قربان جاؤں اس عظیم ماں کے جذبے پر جس نے اس عظیم مقصد کے لئے اپنے یتیم اورعظیم اکلوتے فرزند کی قربانی پیش کر دی۔ غازی مرید حسین کو 1937ء میں شہادت نصیب ہوئی۔ اس کے نو سال بعد ان کی زوجہ محترمہ امیر بانو 1946ء میں پردہ فرما گئیں۔عظیم بیٹے کی شہادت کے 25سال بعد 1962ء میں عظیم والدہ بھی اللہ پاک کو پیاری ہو گئیں۔ 

اب ذکر اس زندہ معجزے کا جس کا کالم کی سرخی میں ذکر ملتا ہے۔غازی مرید حسین کی شہادت کے اب صرف ایک ہی چشم دید گواہ رہ گئے تھے جو سارے واقعہ کی بہت خوبصورتی سے تفصیل بیان کرتے تھے۔ میں 1966-67ء اور 1968ء میں ان کا طالبعلم رہا ہوں اس کے بعد بھی 2021 تک رابطہ رہا۔مجھے ان کی تمام باتوں پر 100فیصد یقین ہے کیونکہ وہ بہت ہی سچے اور دیندار شخص تھے پھر میں نے بچپن سے اپنے والد محترم بابو مہدی خان اور دوسرے معززین سے بھی درجنوں مرتبہ یہ باتیں سن رکھی تھیں اور مجھے یاد بھی تھیں۔ اب جن زندہ چشم دید گواہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ چوہدری محمد ایوب کہوٹ غازی مرید حسین کے چچازاد بھائی کے بیٹے تھے جو 1926ء میں پیدا ہوئے اس معجزے کے وقت ان کی عمر 12,13سال تھی۔جب انہوں نے یہ واقع بیان کیا اس وقت ان کی عمر 95 سال تھی. ماشاء اللہ اب تک بھی کمال کی یادداشت اور صحت تھی کیونکہ ملاقات کے بعد واپسی کی اجازت لینے پر باہر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دوستوں سے گزارش کی تھی کہ غازی مرید حسین کی باتوں اور معجزوں کے آخری گواہ اور چشم چراغ ہیں۔جہاں تک ہو سکے ان کے پیغام کو عاشقان رسولؐ تک پہنچائیں۔ وہ کہاں تک کامیاب ہوئے اس کا مجھے اندازہ نہیں. چوہدری محمد ایوب صاحب اپنی یادداشتوں پر زور دیتے ہوئے فرمانے لگے کہ غازی مرید حسین کی شہادت کے بعد ان کی قبر مبارک سے شہد رسنے لگا تھا جس کو میں نے خود بھی چکھا اور کھایا تھا۔ لیکن پھر اس معجزے کی خبر دور دور تک پھیل گئی اور ملک بھر سے ایک ہجوم امڈ آیا جس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا پھر کچھ عرصے کے بعد وہ شہد آنا بند ہو گیا۔ ایک خبر راقم کو جنرل عبدالمجید ملک سابق وفاقی وزیر نے بتائی جن کی غازی مرید حسین کی شہادت کے وقت عمر 18سال تھی ان کی تاریخ پیدائش 1919ء تھی۔ انہوں نے بنفس نفیس غازی صاحب کے جنازے میں بھی شرکت فرمائی تھی اور پھر اب ان کی اسی خبر کی چوہدری محمد ایوب کہوٹ نے تصدیق بھی فرمائی ہے کہ غازی مرید حسین شہید کے جنازے میں کم و بیش دس لاکھ لوگوں نے شرکت فرمائی تھی۔ یہ اس وقت کے غیر مذاہب کے اخبارات نے بھی خبر شائع کی۔

دوسرا معجزہ یہ تھا کہ بہت سال پہلے غازی مرید حسین کے مزار میں ٹائلوں کا فرش بچھایا گیا، دو دہائیاں پہلے ماربل کی ایک ٹائل جو غازی صاحب کے سرہانے لگی ہوئی ہے وہاں کے لوگوں نے مجھے بتایا اس پر غازی مرید حسین کے پیر کی تصویر بن گئی ہے ان کے پیر صاحب کی تصویر ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو بہت ساری مشابہت ہے جو لوگ وہاں جائیں اس پتھر کی ٹائل کی بھی زیارت کر سکتے ہیں اس کے اوپر شیشہ لگا کر اس کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔غازی مرید حسین شہید اور ان کی والدہ محترمہ کے جذبے، جرات اور حوصلے کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے:


جس کو طوفان سے الجھنے کی ہو عادت محسن

ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتا ہے


غازی مرید حسین جب جہلم جیل میں قید تھے تو رات کے وقت ان کے سزائے موت کے کمرے (جس کو کال کوٹھڑی کہا جاتا ہے) میں نورانی روشنی ہو جاتی تھی۔ ان کے کمرے سے باتوں اور ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں۔ان کے ساتھ والے کمرے میں ایک ہندو سزائے موت کا قیدی تھا اس نے غازی مرید حسین سے اس کی تفصیل جاننے کے لئے بہت اسرار کیا تو غازی صاحب نے بتایا کہ حضور سرور کائنات محمد مصطفیٰ خود تشریف لاتے ہیں وہ قیدی ہونے کے ناطے یہ بخوبی جانتا تھا کہ اس اندھیری کوٹھڑی یا کال کوٹھڑی میں بڑے بڑے تالوں میں بندقیدی کے پاس کسی کی جرات نہیں جو آ سکے۔ اس نے یہ بات سن کر غازی صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور غازی صاحب نے خود اس کا نام غلام رسول رکھا۔ وہ زندگی میں ہی یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اللہ نے مجھے قتل کے گناہ سے معاف فرما دیا ہے۔ جہلم جیل کے ایک سپاہی نے غازی صاحب کے لواحقین اور دوسرے لوگوں کو بتایا جو غازی مرید حسین کی شہادت کے وقت پھانسی والے پھٹے پر جلاد کے قریب کھڑا تھا کہ جب غازی صاحب کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو وہ زور زور سے درود شریف پڑھ رہے تھے۔ جلاد نے انہیں خاموش رہنے کے لئے کہا۔ خاموش رہنے کے لئے اس لئے کہا جاتا ہے تاکہ پھانسی کے لئے پھٹے ہٹانے کے جھٹکے سے قیدی کی زبان نہ کٹ جائے تو غازی صاحب نے جلاد کو کہا کہ تو اپنا کام کر مجھے اپنا کام کرنے دے۔ غازی مرید حسین کا شہادت کے عین وقت پر کہا جانے والا ایسا جملہ ہے جو رہتی دنیا تک اسلامی تاریخ کا حصہ رہے گا۔ غازی مرید حسین شہید کے مزار کے سجادہ نشین ان کے چچازاد بھائی اور علاقے کی ممتاز شخصیت چوہدری خیر مہدی کہوٹ کے بڑے فرزند ارجمند بابو غلام اکبر صاحب ہیں۔ وہ دور دراز سے مزار پر آنے والوں کے لئے مہمان نوازی میں مصروف رہتے تھے ۔ مزار پر سائلین کے ساتھ خود حاضر ہو کر دعائیں کرواتے تھے ۔ وہاں بے سہارا بچوں کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے جہاں تینوں وقت بچوں میں لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ بابو غلام اکبر تمام انتظامات کے ساتھ سالانہ عرس مبارک کے انتظامات بھی بہت خوب نبھاتے تھے۔ ایک سال پہلے ان کا بھی انتقال ہو گیا. اب ان کا صاحبزادہ چوہدری شاہ نواز کہوٹ دربار کے انتظامات چلا رہا ہے غازی مرید حسین شہید کا عرس مبارک اسلامی سال کے مطابق ہر سال 17اور 18رجب کو ہوتا ہے جس میں ملک بھر سے ممتاز قوال قوالی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ 17رجب کو مزار شریف کو غسل دے کر عرس مبارک کا افتتاح کیا جاتا ہے۔ 18رجب کو دن گیارہ بجے سے دن دو بجے تک نعتیں اور تقاریر ہوتی ہیں اور پھر رات عشاء کے بعد موسمی لحاظ سے اوقات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں آج کل سردیوں میں 8 بجے سے لے کر تہجد کی نماز تک قوالیاں ہوتی ہیں۔صبح کے وقت اختتامی دعا کے ساتھ عرس اختتام پذیر ہوتا ہے۔ غازی مرید حسین شہید پیر خواجہ محمد عبدالعزیز نظامی فخری السلیمانی چاچڑ شریف (تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا) کے مرید تھے۔ پیر صاحب خود سیال شریف ضلع سرگودھا کے مرید تھے اس لئے اب ان کا سارا خاندان اپنے نام کے ساتھ سیالوی لکھتا ہے۔ غازی صاحب کی شہادت کے بعد پیر صاحب چاچڑ شریف سے بھلہ شریف غازی مرید حسین کے دربار پر منتقل ہو گئے تھے۔ پیر صاحب غازی صاحب کے پہلے عرس سے چند یوم پہلے 1938ء میں اس دنیا سے کوچ فرما گئے لیکن اس سے پہلے غازی مرید حسین شہید کے عرس اور زائرین کے لئے بہت ساری واضح ہدایات فرما گئے تھے۔ پیر صاحب نے بھی اپنی وفات سے پہلے ایک تاریخی جملہ کہا کہ ہندو اب بہت جلد یہاں سے چلے جائیں گے لیکن جب تک وہ نہیں جاتے ان کی موجودگی میں گائے کا گوشت یا ذبیحہ نہ کرنا تا کہ ان کی دل آزاری نہ ہو اور ہندو مسلم فسادات نہ شروع ہو جائیں۔ ان کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا۔ 1940ء میں دو قومی نظریہ کی قرارداد پاس ہو گئی۔ غازی مرید حسین شہید کی شادی انتہائی سادگی سے ہوئی تھی. ان کی ماں جیل میں ملاقاتوں کے دوران بھی اکثر اپنے بیٹے سے کہتی کہ اگر آپ نے یہاں ہی آنا تھا تو مجھے شادی تو خوب شوق سے کرنے دیتے اس پر غازی صاحب صرف مسکرا دیتے لیکن سزائے موت پر عملدرآمد ہونے سے ایک دن پہلے 8 لواحقین کی ملاقات کرائی گئی تو اس دن غازی صاحب نے اپنی ماں کو ہنس کر کہا کہ کل اپنے بیٹے کی بارات دیکھنا آپ کے سارے شوق پورے ہو جائیں گے۔ جنرل عبدالمجید ملک سابق وفاقی وزیر اور چوہدری محمد ایوب کے مطابق جو غازی مرید حسین کے جنازے کے عینی شاہد تھے بتاتے تھے کہ غازی صاحب کی والدہ جنازے کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں لوگ ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہوئے مبارکبادیں پیش کر رہے تھے تو وہ مسکراتے ہوئے سب کو خیرمبارک کہہ رہی تھیں۔ کئی دفعہ ہار بہت زیادہ ہو جاتے تو وہ اتار کر لوگوں کو پکڑائے جا رہی تھیں۔ ہاروں کے پھول جنازے میں شریک لوگ تبرکاً اپنے پاس محفوظ کر رہے تھے اللہ تبارک و تعالیٰ سب کی دعائیں اور مرادیں قبول فرمائے۔غازی مرید حسین کی شہادت کے بعد ان کی والدہ زیادہ قبر مبارک کے پاس ہی رہتی تھیں۔ لوگ ان سے بھی دعا کی درخواست کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرماتا۔یہاں میں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ جب غازی مرید حسین نے اس مردود کو واصلِ جہنم کرنے کا ارادہ کر لیا تو انہوں نے اپنی والدہ اور اپنے پیر صاحب سے سفر اور اس مقصد کے لئے دعا اور اجازت طلب کی تو پیر صاحب نے ہی یہ شرط رکھی کہ اس نیک مقصد پر جانے سے پہلے آپ شادی کریں تو پیر صاحب کی خواہش اور حکم کے مطابق انہوں نے صرف چند دنوں میں شادی کی تیاری کی کیونکہ وہ جلد از جلد اس مردود زبان سے وہ گستاخی کے الفاظ چھیننا چاہتے تھے. اب میں سمجھتا ہوں کہ جیسے غازی مرید حسین خود فرما رہے ہوں کہ اس مردود کی مکروہ حرکت سے اپنے قارئین کو آگاہ کر دوں کہ کس وجہ سے غازی مرید حسین نے قتل جیسا بڑا کام کیا تو حقیقت اس طرح ہے کہ اس مردود ڈاکٹر رام گوپال جو خود ایک ویٹنری ڈاکٹر تھا اس نے نعوذباللہ نعوذباللہ نعوذباللہ اپنے پالتو گدھے کا نام حضور سرور کائنات ﷺ کے نام سے منسوب کر رکھا تھا اور نعوذباللہ اپنے گدھے کو اسی نام سے پکارتا، اسی نام سے اس پر سواری کرتا اور اس نام سے ہی نوکروں کو کہتا کہ (اس کو)پانی یا چارہ ڈالو۔ ایسی حرکت پر غازی مرید حسین کو اس مردود کو واصلِ جہنم کرنے کا اعزاز بخشا گیا ہے اور آج ملک بھر سے لوگ ان کے مزار پر قافلوں کی شکل میں بسیں بھر بھر کر حاضری لگواتے ہیں اپنی پریشانیوں، مرادوں اور بیماریوں سے نجات کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ ان کی مرادیں پوری فرما تا ہے۔مزار پر آنے والوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور جنوبی وزیرستان سے قافلوں کی شکل میں لوگ دربار پر حاضر ہوتے ہیں۔اللہ تبارک تعالیٰ نے غازی اور شہید عاشقِ رسول کے مزار پر ایسی برکت اور خوشبو پھیلا رکھی ہے کہ واپس آنے کو دل ہی نہیں کرتا پھر خاص طور پر وہاں پر آنے والوں کی زبان سے ان کی دعائیں قبول ہونے کے معجزوں کی باتیں سن کر ہر شخص کا دل کرتا ہے کہ اپنے سارے خاندان کو لے کر یہاں حاضری دوں۔اللہ تبارک تعالیٰ سب کی مشکلیں آسان فرمائے۔ آمین۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.