سانحہِ بہاولپور کی انکوائری کیلئے ماضی میں بنائے گئے تینون کمیشنز کی رپورٹ پبلک کی جائے،اعجاز الحق

 


مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہِ بہاولپور کی انکوائری کیلئے ماضی میں بنائے گئے تینون کمیشنز کی رپورٹ پبلک کی جائے۔


 جسٹس شفیع کمیشن نے تو اس سانحہ کی کریمنل انوسٹیگیشن کا بھی کہا تھا۔ آج 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق شہید کی برسی منائیں گے۔


 اکتوبر 1999 سے پہلے تک نواز شریف ہمارے ساتھ تھے پھر ان کا فوج سے اختلاف پیدا ہوگیا



راولپنڈی میں مسلم لیگ ضیاءح کے سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعجاز الحق کا مزید کہنا تھا کہ شہدائے بہاولپور، معرکہ حق اور جشن آزادی کے حوالے سے بات کروں گا، اس سال جشن آزادی ملک بھر میں 1981 کے بعد جوش جذبے اور ولولے کے ساتھ منایا گیا، مارچ 1981 میں جب پی آئی اے کا جہاز دہشتگرد تنظیم الذولفقار اغواء کرکے افغانستان لے گئی، کابل ایمبیسی میں تعینات شخص عبدالرحیم کو جہاز میں شہید کیا گیا تھا۔ قوم مایوسی کا شکار تھی، 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے فیصلہ کیا کہ 14 اگست کو جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ منایا جائے گا رواں سال جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے اندر ایک جذبہ اور روح پھونکی گئی ہے، یہ ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اللہ سے آتی ہے یہ بات ضیاء الحق شہید نے کہی بعد میں بہت سارے آرمی چیفس پر دباؤ پڑا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے اس سلوگن کو ختم کیا جائے۔ ہمارے ہیروز کو 14اگست پر میڈلز دیئے گئے جسے ہم سراہتے ہیں، اب وقت ایسا آگیا ہے کہ معرکہ حق پر وزراء نے بڑھکیں بھی لگائیں اور کسی نے غلط باتیں بھی کیں، ماضی میں کسی نے کہا کہ ہم نے کسی کی خاطر یہ جہاد کیا تھا،میرا خیال ان کو اس بات کا علم ہی نہیں، جہاد افغانستان میں دو سال تک امریکہ سمیت کوئی شامل نہیں تھا، ایک ہی فیصلہ تھا کہ ہم نے کسی طرح سے روس کو افغانستان سے واپس بھیجنا ہے، پھر دنیا نے دیکھا روس کے اندر سے 6 اسلامی ریاستیں نکلیں جہاں مدارس اور مساجد پر 80 سال سے تالے لگے تھے وہ دوبارہ آزاد ہوئیں اب وہاں اذانیں دی جاتی ہیں، پاکستان کے دو قومی نظریہ، اسلامی شقیں ڈالنے پر سب کو تکلیف ہوتی ہے جو ضیاء الحق کو برا کہتے ہیں وہ بھی اسی وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ وہ آرٹیکل ٹو اے کے روح پھونک گئے ہیں۔ ضیاء الحق کے بعد جتنے آرمی چیف گزرے ہیں ہم نے ہر کسی سے مطالبہ کیا کہ ایک فوجی وردی میں شہید ہوا اس واقعہ کے حتمی نتیجہ پر پہنچا جائے۔ بینظیر بھٹو کا حادثہ ہوا اس کے قاتل بھی نہیں ڈھونڈے گئے،خوش قسمتی سے اس کے بعد ان کی اپنی پارٹی کی حکومت آئی اگر سانحہ بہاولپور کے بعد ہماری حکومت آتی تو میں دیکھتا کہ کیسے لوگ نہ پکڑے جاتے یا ذمہ داروں کا تعین نہ ہوتا۔ بینظیر بھٹو کے حادثہ کو اس کی اپنی حکومت نے دبانے کی کوشش کی۔ 10مئی کے بعد پاکستان وہاں پہنچ چکا ہے جہاں دنیا ہمیں دیکھ رہی، ایران کے صدر یہاں آ رہے ہیں، جب تک دہشتگردی کو نہیں روکا جائے گا تب تک ملک اقتصادی و معاشی طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔۔دہشتگردی کے پیچھے بھارت، راء اور موساد سمیت پاکستان دشمن ملوث ہیں اگر ہندوستان باز نہ آیا تو اب ہمیں پتہ لگ گیا کہ اسکو کیسے سبق سکھانا ہے اگر کلبھوشن یادیو ٹائپ کی کوئی چیز کی تو پھر ان پر میزائل ماریں گے اور سبق سکھائیں گے، ہم نے کل ضیاء الحق شہید برسی کی تقریب میں شرکت کے لئے اپنے ہم خیال دوستوں کو دعوت دی ہے، بیرون ممالک میں اپوزیشن نے شیڈو کیبنٹ بنائی ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اپوزیشن محاذ آرائی کا نام ہے پکڑو مارو اور چلتے بنو، حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو دو مرتبہ مذاکرات کی دعوت ہو چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک زیرک سیاستدان ہیں امید ہے وہ آئندہ بھی حکومت اور اپوزیشن میں ایک پل کا کردار ادا کریں گے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.